Sadaqat Academy provides free learning courses, scholarships, guidance, Test Preparations, videos lectures, past papers for all class.

No More Tension: All is here

Guidances, TimeTable, News etc.

Sunday, October 6, 2019

General Information about Dengue in Urdu

General Information about Dengue in Urdu. Know About Dengue in Urdu



Dengue ڈینگی

ڈینگی کیا ہے؟

ڈینگی دراصل ایک وائرس کا نام ہے جس کا تعلق وائرس کے Flaviviridae خاندان سے ہے. اس وائرس کے 4 اقسام ہیں جن کو DEN-1, DEN-2, DEN-3 اور DEN-4 کہا جاتا ہے.

کیا یہ صرف پاکستان میں موجود ہے؟

نہیں. ڈینگی آدھی سے زیادہ دنیا میں پھیلا ہوا ہے اور تقریباً ہر ملک میں اس کے متاثرہ لوگ موجود ہیں.

یہ کیسے پھیلتا ہے؟

ڈینگی دو انواع کے مادہ مچھروں کے ذریعے پھیلتا ہے جن کے نام
Aedes aegypti اور Aedes albopictus ہیں.
ان دو مچھروں میں زیادہ پھیلاؤ  Aedes aegypti کے ذریعے ہوتا ہے.
جیسے ہی یہ وائرس مچھر کے جسم میں چلا جاتا ہے تو دس دن بعد وہ مچھر اپنی پوری زندگی وہی وائرس پھیلاتی رہتی ہے.
کاٹے جانے کے بعد جب انسانوں میں علامات ظاہر ہو تو اسی بندے سے تقریباً 12 دن تک Aedes جینس کے مچھروں کے ذریعے وائرس پھیلتا جاتا ہے.

ان مچھروں کی پہچان کیا ہے؟

ان مچھروں کی پہچان بہت آسان ہے. Aedes aegypti کی پہچان یہ ہے کہ اس کے پاؤں پر کالے اور سفید دھاریوں کے ساتھ ساتھ اس کے Thorax یعنی کمر پر بھی ایک سفید لکیر ہوگی. جبکہ Aedes albopictus کی پہچان یہ ہے کہ اس کے جسم پر کالے اور سفید دھاریاں ہوتی ہیں.  اس کے thorax پر لکیر ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے آنکھوں کے درمیان سے لے کر اس کے thorax  تک ایک اور سفید لکیر ہوتی ہے جو اس نوع کی خاص پہچان ہے.

یاد رکھیں کہ مچھروں کے بہت سے جنگلی انواع کے پاؤں پر بھی اس طرح کے کالے اور سفید دھاریاں ہوتی ہیں اور لوگ ان کو Dengue پھیلانے والا مچھر سمجھ لیتے ہیں جوکہ وہ ہوتے نہیں. آپ نے فوراً ان کے کمر پر لکیر دیکھنا ہے.

کیا یہ مچھر دوسرے وائرس بھی پھیلاتے ہیں؟

جی ہاں. Aedes aegypti ڈینگی وائرس سمیت Zika, chikungunya اور یرقان کے وائرس بھی پھیلاتا ہے.
اگر ایک بندے کو ڈینگی بخار ہو اور اس کو عام مچھر کاٹ لیں تو کیا وہ عام مچھر ڈینگی پھیلا سکتا ہے؟

نہیں، عام مچھر کسی بھی صورت ڈینگی کے وائرس نہیں پھیلا سکتا کیونکہ ان کا اندرونی جسم وائرس کے لئے موزوں نہیں ہے اور وائرس ان کے معدے میں جاتے ہی ہضم ہو جاتا ہے.

یہ مچھر کہاں رہتے ہیں؟

ان مچھروں کی پسندیدہ جگہ صاف پانی ہے. یہ عموماً پنکچر کی دکان والی ٹائروں جن میں پانی بھرا ہوتا ہے، گملوں، سوئمنگ پولز اور وہ پانی کی ٹینکیاں جن پر ڈھکن نہیں ہوتا، اس میں رہتے ہیں.

ڈینگی بحار کے علامات کیا ہیں؟

متاثرہ مچھر کے کاٹنے کے تقریباً 4 سے دو ہفتوں کے بعد علامات شروع ہو جاتے ہیں. ڈینگی بخار کے سب سے بنیادی علامات میں بہت تیز بخار (104 تک)، شدید سر درد، آنکھوں کے پیچھے درد، دل کا خراب ہونا، الٹی کرنا، پٹھوں اور جوڑوں کا درد اور جسم پر خارش جیسے سرخ دانوں کا نمودار ہونا ہے. یہ شروع کے علامات ہیں جو 3 دنوں سے لے کر ایک ہفتہ تک رہتے ہیں.

ڈینگی جب شدت اختیار کر لے تو ابتدائی علامات کے بعد جسم کا درجہ حرارت یعنی بخار کم ہو جاتا ہے اور پھر مسلسل الٹی شروع ہو جاتی ہے اور الٹیوں میں خون آنا شروع ہو جاتا ہے ،  پیٹ میں شدید درد، تھکاوٹ، بے سکونی، سانس کا پھولنا، مسوڑوں سے خون آنا شامل ہے. یہ تب ہوتا ہے جب خون میں platelets کی مقدار بہت گر جاتی ہے اور اندرونی اعضاء سے خون جسم کے اندر رسنے لگتا ہے. یہ انتہائی خطر ناک علامات ہیں جو ایک سے دو دن تک رہتے ہیں اور جانلیوا ہیں مگر بر وقت طبی امداد سے بچ جانے کے امکانات ہیں.

اگر کسی بندے کو ایک دفعہ بخار ہو جائے تو کیا اس کو دوبارہ ڈینگی بخار ہو سکتا ہے؟

جیسے اوپر بتایا گیا ہے کہ ڈینگی وائرس کے 4 اقسام ہیں جو بخار کا سبب بنتے ہیں. ایک قسم کا  وائرس ایک ہی دفعہ بیماری کا سبب بنتے ہیں. پھر جسم میں ان کے خلاف مدافعت پیدا ہو جاتی ہے اور وہی قسم دوبارہ بیماری یا شدید بیماری کا سبب نہیں بن سکتا.

کیا ڈینگی کا علاج دوائی سے ممکن ہے؟

نہیں، فی الوقت ڈینگی کا کوئی علاج نہیں. ہسپتال میں مریض کا fluid level برقرار رکھا جاتا ہے اور بخار کو کم کرنے کی دوائی دی جاتی ہے. اور ساتھ میں لیموں ملا سیب کا جوس. یاد رکھیں ڈینگی کے سارے اقسام جان لیوا نہیں ہوتے. مریض کے مرنے کے چانسز 20 فیصد ہوتے ہیں اور کسی قسم کا کوئی علاج نہ کیا جائے. بر وقت علاج کی صورت میں مرنے کے چانسز 1 فیصد سے بھی کم ہوتے ہیں.

کیا ڈینگی کے ویکسین موجود ہیں؟

جی ہاں. ڈینگی کے ویکسین موجود ہیں جن کو Dengvaxia کہا جاتا ہے جو 2015 میں بنائے گئے جو 9 سے لے کر 45 سال تک کے عمر کے افراد کے لئے موزوں ہیں جو فی الحال کئی ممالک میں دستیاب ہیں جو بہت زیادہ ڈینگی کی لپیٹ میں ہیں. یہ ویکسین پوری دنیا میں بہت سے وجوہات کی بناء پر دستیاب نہیں اور وہ مسئلے وقت کے ساتھ حل کئے جائیں گے.

کیا ڈینگی سے بچاؤ ممکن ہے؟

ڈینگی سے بچاؤ یا خاتمے کے لئے اس مچھر کو ختم کرنا ہوگا جو یہ وائرس پھیلاتے ہیں. ان کے خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ:

گھر میں موجود گملوں، سویمنگ پولز، یا کسی بھی برتن میں پانی کھڑا نہ رہنے دیں یا اس کو ڈھانپ کر رکھیں جس میں مچھر داخل نہ ہو سکے.

گلیوں یا گھروں کے آس پاس موجود پانی کے چھوٹے تالابوں کو بند کر دیں اور اس کے آس پاس موجود گھاس میں کیڑے مار دوا سپرے کریں.

رات کو مچھر دانی کا استعمال کریں اور اپنے اور بچوں کے جسم کے کھلے اعضاء پر کوئی بھی مچھر بھگانے والے کیمیکل کا استعمال کریں.

پورے آستینوں اور پائنچوں والا لباس پہن رکھیں.

کیا کوئی ایسی سپرے ہے جس کو گھر میں کرنے سے ان سے محفوظ رہا جا سکتا ہے؟

جی ہاں. پر اگر آپ کے گھر میں بچے ہیں تو سپرے کرنا محفوظ طریقہ نہیں ہے اور سپرے کرتے وقت خود بھی نہایت احتیاط کرنی چاہیے. آپ گھر میں Icon یا Lambda نامی سپرے کر سکتے ہیں پر سپرے کرتے وقت پورے جسم کو ڈھانپ لیں اور ماسک اور عینک کا استعمال لازمی ہے. سپرے کے وقت سب برتن ڈھانپ لیں اور بچوں کو دور رکھیں. سپرے کے بعد نہا لیں.

یہ مچھر کب کاٹتے ہیں ؟

ان مچھروں کو crepuscular کہا جاتا ہے جس کا مطلب یہ سورج طلوع  اور غروب ہونے کے وقت ایکٹیو ہوتے ہیں اور کاٹتے ہیں. یہ زیادہ اونچا نہیں اڑ سکتے اس لئے عموماً پاؤں پر کاٹتے ہیں. سورج طلوع ہونے کے 2 گھنٹے بعد یہ کاروائی شروع کرتے ہیں اس لئے اگر آپ متاثرہ علاقوں میں رہتے ہیں تو گھاس پر چلتے وقت یا ان اوقات کے وقت ہاتھ پاؤں پر موسپل وغیرہ لگائے رکھیں.

انکے دئیے گئے انڈے کتنے وقت تک کار آمد ہوتے ہیں؟

اگر یہ کسی جگہ انڈے دیں اور وہاں سے پانی ختم ہو جائے تو ان کے انڈے 1 سال تک کار آمد ہوتے ہیں. جیسے ہی ان کو پانی دستیاب ہوجاتا ہے، ان سے بچے نکل آتے ہیں.

ڈینگی کے مچھروں کو انفرادی طور پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے یا پھر اجتماعی؟

اس کا سب سے مؤثر کنٹرول اجتماعی طور پر ہو سکتا ہے. اگر ایک گاؤں والے اجتماعی طور پر پورے گاؤں میں غیر ضروری تالاب بند کریں اور کمیونٹی بنیاد پر سپرے کریں تو ان کو آسانی سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے. اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ اپنے سکول، کالج، دفاتر، حجرہ یا کسی بھی کام والی جگہ پر ڈینگی کے متعلق آگاہی پھیلائیں..



Share:

0 comments:

Post a Comment

Search This Blog

Recent Posts