پنجاب میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کی وجوہات کا تحقیقی جائزہ
اللہ تعالی نے تخلیقِ انسانی کے بعد انسانیت کے درمیان جو
سب سے پہلا رشتہ قائم کیا، وہ میاں بیوی کا رشتہ تھا۔ میاں بیوی کا رشتہ مضبوط اتنا
ہے، کہ اللہ تعالی نے ان کو ایک دوسرے کا لباس قرار دے دیا۔
ارشاد باری تعالی ہے:
اُحِلَّ لَکُمۡ
لَیۡلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ
اِلٰی نِسَآئِکُمۡ
ؕ ھنَّ لِبَاسٌ لَّکُمۡ
وَ اَنۡتُمۡ
لِبَاسٌ لَّھُنَّ ﴿البقرہ: ۱۸۷﴾
تمہارے لئے
حلال کردیا گیا ہے کہ روزوں کی رات میں تم اپنی بیویوں سے بے تکلف صحبت کرو ، وہ تمہارے لئے لباس ہیں۔
اور یہ رشتہ نازک اتنا ہے، کہ لفظ "طلاق" سے ہی
ٹوٹ کے بکھر جاتا ہے۔
اس رشتے کو
قائم کرنے والے عمل یعنی "نکاح" کو اللہ تعالی نے ایمان کی تکمیل، عفت و
پاکدامنی کے حصول، جنسی تسکین، افزائشِ نسل اور انسانیت کی بقاء کا ذریعہ بنایا۔
اللہ تعالی نے انسانوں کے درمیان جتنے بھی رشتے قائم کیے
ہیں وہ سب دائمی ہیں اور ان کو ختم کرنے کا
اختیار کسی انسان کو نہیں دیا گیا۔
جبکہ میاں بیوی کا ایک ایسا رشتہ ہے جس کو جب چاہے ختم کیا
جا سکتا ہے۔ اسلام نے نبھا نہ ہونے کی صورت میں مرد و زن کو طلاق اور خلع کا راستہ
بتایا ہے۔ مگر ساتھ ہی اسے ناپسندیدہ عمل بھی قرار دے دیا۔ کیونکہ شیطان نکاح سے ناخوش
اور طلاق سے خوش ہوتا ہے۔
اجڑتے گھر ، بچھڑتے لوگ، سلگتے دل، سسکتے بچے، برباد ہوتی
نسلیں...... یہ سارے فقرے اس وقت موضوع بنتے ہیں جب دو گھر اجڑ جاتے ہیں. گھر کیوں
برباد ہوتے ہیں؟ خاندانوں کا شیرازہ کیوں بکھر جاتا ہے؟ طلاقیں کیوں عام ہوتی جا رہی
ہے؟
آپ نظر اٹھا
کر دیکھیں آج ہر خاندان میں طلاقیں نظر آئیں
گی. کیا کچھ سالوں پہلے ایسا تھا؟
یقیناً نہیں،
تو پھر یہ اب اتنی عام کیوں؟
گزشتہ پانچ سال کے دوران تقریبا شرح طلاق تین سے چار گنا بڑھ گئی ہے۔ ایک مسلم کمیونٹی میں
یہ شرح لمحہ فکریہ ہے۔ پہلے ایک یونین کونسل میں اگر طلاق کے دس کیس آتے تھے۔ تو اب
یہ تعداد تین گنا تک بڑھ گئی ہے۔ گھروں کے شیرازے بکھر کر رہے ہیں اور ہماری نسلیں
تباہ و برباد ہو رہی ہیں۔
جب والدین اپنے بیٹے اور بیٹی کی شادی کر دیتے ہیں تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان
کے کندھوں سے بوجھ اتر چکا ہے. کتنے لاڈ اور پیار سے وہ اپنے گھر میں بہو بیاہ کر لاتے
ہیں۔ اور اتنے ہی سپنے سجا کر لڑکی کے والدین اپنے جگر کا ٹکرا ایک لڑکے کے حوالے کر
دیتے ہیں.
بہت
سی دعاؤں، چاہتوں، نئی امیدوں اور ولولوں کے ساتھ ایک نیا جوڑا اپنی نئی ازدواجی زندگی
کی شروعات کرتا ہے. کچھ سال اور مہینے ہنسی خوشی گزر جاتے ہیں. بچے بھی ہو جاتے ہیں.
اور پھر وہ ہوتا ہے جو کسی نے سوچا بھی نہیں ہوتا. طلاق، طلاق اور طلاق...
یہ ایک لفظ جو صرف تین بار بولا جاتا ہے یہ دو محرموں کو نامحرم اور دو گھروں
کی بربادی بن کر سامنے آتا ہے. یہ خبر جب لڑکی
کے والدین تک پہنچتی ہے تو ان کے پاؤں کے نیچے سے زمین سرک جاتی ہے، ان پر وہ خبر پہاڑ
بن کر گرتی ہے اور وہ جیتے جی جیسے مر سے جاتے ہیں. ان کو سمجھ نہیں آتی وہ کیا کریں؟
اپنا دکھڑا کسے سنائیں؟ معاشرے کا سامنا کیسے کریں گے؟ اور پھر لڑکی کی شادی؟ کیا اس
کی شادی دوبارہ ہو پائے گی؟ کیا کوئی دوبارہ اسے قبول کرے گا؟ یہ وہ خدشات ہیں جو لڑکی
کے والدین کو گھیرے رکھتے ہیں.
محض نصف دہائی میں ضلعی حکومتوں کے پاس رجسٹر ہونے والے
کیسز 56 فیصد تک بڑھ گئے ہیں۔ خاندانی نظام کی توڑ پھوڑ اور طلاق کے کیسز کی بڑھتی ہوئی تعداد جہاں معاشرے کے بگاڑ
کی جانب اشارہ کررہی ہے وہاں ہی علیحدہ ہونے والے جوڑوں کے بچے بھی اپنے ماں باپ کے
منفی رویوں کا شکار بن رہے ہیں۔ طلاق کے بعد حوالگی کیسز کی وجہ سے معصوم بچے کوٹ کچہریوں
کے چکر کاٹنے پر مجبور ہیں. جس سے انکی شخصیت اور نفسیات پر انتہائی گہرا اثر پڑ رہا
ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق سال 2012 سے 2017کے درمیان پنجاب
کے 36اضلاع میں خلع یا طلاق کے 4 لاکھ 78 ہزار 130کیسز رجسٹر ہوئے ہیں، جن میں 20 فیصد
صرف فیصل آباد اور لاہور کے اضلاع سے رپور ٹ ہوئے ہیں ۔پنجاب کے 36 اضلاع سے سال
2012 میں 63 ہزار 7 سو 34 ، سال 2013 میں
69 ہزار 1 سو 26، سال 2014 میں 74 ہزار 6 سو 19، سال 2015 میں 77 ہزار 3 سو 27 ،سال
2016 میں 93 ہزار 5 سو 7 اور سال 2017 میں
99 ہزار 5 سو 99 جوڑوں نے علیحدگی اختیار کی۔
اب ہم معاشرے میں ان وجوہات پر نظر دوڑاتے ہیں جن کی وجہ سے طلاق کی یہ شرح
خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے.
1- رشتوں کے انتخاب میں غلطی
اس میں کوئی شک نہیں کہ رشتے آسمانوں پر بنتے ہیں۔ لیکن
اللہ تعالی نے انسان کو عقل و شعور کی دولت بھی عطا فرمائی ہے۔
طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح میں ایک بڑی وجہ رشتوں کا غلط انتخاب
ہے۔
ان چار چیزوں کی وجہ سے رشتے کا انتخاب کیا جاتا ہے۔
حسب نسب،
حسن و جمال،
مال و دولت
اور
دینداری۔
جو شخص رشتے کے انتخاب میں دینداری کو ترجیح دیتا ہے تو
ایسے لوگوں کے ازدواجی زندگی بہت پرسکون ہوتی
ہے۔
اور جب رشتے کے انتخاب میں دینداری کی علاوہ باقی تینوں
چیزوں کو ترجیح دی جائے گی تو ایسے رشتے اکثر ناکام ہو جاتے ہیں۔
2- شادی میں اسراف اور غیر شرعی رسومات
حدیث پاک کے مفہوم کے مطابق سب سے بابرکت نکاح وہ ہوتا ہے
جس میں کم سے کم خرچ کیا جائے۔ شادیوں پر بے جا اسراف اور غیر شرعی رسومات یقینا ازدواجی
زندگی پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں۔
3- لوّ میرج
لو میرج اور
ارینج میرج دونوں میں مسائل تو ہیں لیکن الگ
الگ ہیں۔ لوّ میرج میں زیادہ توقعات پوری نہ ہونا جبکہ ارینج میرج میں باہمی چپقلش
اور بداعتمادی طلاق کا باعث بن رہی ہے۔ جب کہ دوسری قسم میں والدین کا کردار اہم ہے۔
جو چھوٹی چھوٹی بات پر اپنی بیٹی یا بیٹے کو سپورٹ کر دیتے ہیں اور انا کا مسئلہ بن
جانے سے بات طلاق پر ختم ہوتی ہے۔
4- بے اولادی
بے اولادی یا بیٹے کا نہ ہونا طلاق کی بہت بڑی وجہ ہے۔ اولاد
مرد کے نصیب سے اور رزق عورت کے مقدر سے ہوتا ہے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
وہ (اللہ) جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، جس کو چاہتا ہے بیٹیاں
دیتا ہے، جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے، یا انہیں جمع کر دیتا ہے بیٹے بھی اور بیٹیاں
بھی، اور جسے چاہے بانجھ کر دیتا ہے، وہ بڑے علم والا اور کامل قدرت والا ہے۔
اس سے بڑی جہالت اور کیا ہوگی کہ اولاد کے نہ ہونے پر، یا
بیٹی کے پیدا ہونے پر، عورت کو خاوند یا ساس کی طرف سے طعنے ملیں، کہ بیٹا کیوں پیدا نہیں ہوا؟
ارے ظالمو!
اس بیچاری
کے اختیار میں ہوتا تو وہ تمہیں بیٹا دے دیتی۔
بچے کی پیدائش کے تکلیف دہ موقع پر عورت کو سب سے زیادہ ضرورت اپنے خاوند کی
محبت اور حوصلہ افزائی کی ہوتی ہے۔
اس موقع پر جب اسے بیٹا نہ ہونے کے طعنے دے کر ذہنی ٹارچر
کیا جائے گا۔ تو یقینا اس کی آہیں تمہاری ہلاکت و بربادی کا سبب بنے گیں۔
ایسے مواقع پر صرف خاوند ہی اپنی بیوی کو سپورٹ کر دے تو
وہ کافی حد تک سنبھل سکتی ہے۔
5- دین سے دوری
دین سے دوری بھی طلاق کی شرح میں اضافے کا باعث ہے۔ میاں
بیوی ایک دوسرے کے حقوق و فرائض ادا کرنے میں لاپرواہی برتتے ہیں۔ اور نتیجہ اس بے
توجہی کا طلاق۔ اور اس سارے سلسلے میں خراب بچے ہو رہے ہیں جو معاشرے کا کبھی بھی ایک مفید رکن نہیں بن سکتے۔
6- والدین کی تربیت میں کمی
تربیت میں کمی بھی طلاق میں اضافہ کی ایک وجہ ہے۔ ماؤں کو
چاہیے کہ اچھے بیٹوں کے ساتھ ساتھ اچھے شوہر بھی پیدا کریں۔ اور بیٹیوں کو صبر کی تلقین
کریں۔
لیکن جب مائیں خود ہی اپنے بیٹوں کے گھر اجاڑنے کے در پے
ہو جائیں تو ایسی قوم پر پھر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔
7- دوسری شادی
دین اسلام چار شادیوں کی اجازت دیتا ہے۔ مگر ہمارے معاشرے
میں دوسری شادی کرنے پر عورت طلاق لے لیتی ہے۔ اور عجیب بات یہ ہے کہ آج کی عورت زنا
قبول کر لیتی ہے مگر سوتن نہیں۔
8- سوشل میڈیا
طلاق کی ایک وجہ سوشل میڈیا ہے۔سوشل میڈیا ترغیب دیتا ہے
اور الیکٹرونک میڈیا سہولت دیتا ہے جس کی وجہ سے طلاقیں زیادہ ہو رہی ہیں۔
ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ طلاق کیسز کی بڑی وجہ نوجوان
نسل کی جانب سے سوشل میڈیا کا بڑھتا ہوا استعمال،فلم،ڈرامے یا رومانوی کہانیوں کو پڑھ
کرجیون ساتھی سے حقیقت کے برعکس حد سے زیادہ توقعات لگانا شامل ہے۔ سسرالیوں کا رویہ،مالی
مسائل اور عدم برداشت بھی طلاق کا باعث بنتی ہے۔
9- خواتین کی بے صبری
شوہر کی کمائی پر اکتفا نہ کرنا، دوسروں کی طرف دیکھ کر
حسد کا شکار ہونا، مرد سے لڑائی اور بڑھتی ہوئی ہوس گھر ٹوٹنے کا سبب بنتی ہے۔
10- توقعات کی عدم تکمیل
جب دونوں
کی شادی ہوتی ہے تو شوہر بیوی کو بہت بڑے بڑے سپنے دکھاتا ہے. اور بیوی اپنے آپ کو
ایک ملکہ سمجھتی ہے. شوہر اپنی بات میں سچا ضرور ہوتا ہے. وہ چاہتا ہے کہ بیوی کی ہر
خواہش پوری کرے. لیکن وہ بیچارہ حالات کی گردش میں مارا جاتا ہے. آج کل کے بگڑتے حالات،
معاشی پریشانی، بےروزگاری، مہنگائی اور یوٹیلیٹی بلز ہی بندے کی جان نہیں چھوڑتے. اور
جب بندہ حالات کی گردش میں مارا جاتا ہے تو اس سے کچھ بھی بن نہیں پاتا اور پھر آپس
میں تکرار اور ایک دوسرے کو طعنے دینا یہ معمول بن جاتا ہے۔ پھر جھگڑے بڑھتے ہی جاتے
ہیں۔ اور پھر اس کا انجام وہی ایک لفظ جو وبال جان بن جاتا ہے۔ اور دو گھروں کی بربادی
کی صورت میں سامنے آتا ہے .
یہاں بیوی کو اپنے شوہر کا ساتھ دینا چاہیے. بیوی کبھی بھی اپنے ذہن میں یہ
بات نا بٹھا لے کہ میری تمام خواہشات بس چند سالوں میں پوری ہو جائیں. ظاہر ہے دونوں
جب اتنے عظیم بندھن میں بندھے ہیں تو وہ پوری زندگی کے لیے ہی ہیں. اور چھوٹی چھوٹی
خواہشات تو زندگی کے ساتھ ساتھ پوری ہو ہی جاتی ہیں.
11- شک کی بیماری
شک ایک ایسا
قبیح فعل ہے جس نے بہت سے ہنستے ہوئے گھر اجاڑ دیے ہیں. شک رشتوں کو دیمک کی طرح چاٹنا
شروع کر دیتا ہے۔ جس گھر میں شک داخل ہو جائے تو وہاں سے اعتماد نکل جاتا ہے. جیسے
ایک نیام میں دو تلواریں نہیں رہ سکتی اسی طرح شک اور اعتماد ایک ساتھ نہیں رہ سکتے.
ایک لڑکی جو اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر، اپنا گھر، بہن بھائی، اپنے بچپن کی سہیلیاں
اور وہ در و دیوار جہاں اس نے اپنی زندگی کا سب سے قیمتی وقت گزارا ہو. ان سب کو ایک
دم چھوڑ دینا کتنا تکلیف دیتا ہے. اور سب سے بڑھ کر اپنے پیارے والدین کو چھوڑ کر جب
ایک اجنبی مرد کے پاس آتی ہے تو اس کا سب کچھ اب ایک شوہر ہی ہوتا ہے۔ اس کا جینا مرنا
بس ایک فردِ واحد کے لیے ہوتا ہے۔ اور پھر جب بچے ہو جائیں تو وہ اپنے بچوں کے لیے
تن من دھن قربان کر دیتی ہے. اپنے شوہر کے
لیے ہر مشکل وقت میں ساتھ دیتی ہے۔ اسے اپنا مجازی خدا مانتی ہے۔ اور پھر وہی مرد،
جب اسے شک کی نظروں سے دیکھے، اس پر الزام تراشیاں کرے، اس کے ہر قدم اور ہر ادا کو شک کی نظر سے دیکھے،
اس کی عزت پر انگلی اٹھائے تو وہ ایک عورت ذات جس کو صنف نازک بھی کہا جاتا ہے وہ جیتے
جی زندہ درگور ہو جاتی ہے. عورت کے پاس ایک عزت کے علاوہ ہوتا ہی کیا ہے؟ اور وہ عزت
بھی کب کی اپنے شوہر کے حوالے کر چکی ہوتی ہے. اور پھر وہی شوہر صرف شک کی بنا پر اپنی
بیوی کو طلاق دے دے تو وہی شوہر اپنی بیوی کے لیے گالی بن جاتا ہے۔ پھر اسے دنیا کے
کسی مرد کے اوپر بھروسہ نہیں ہوتا. عورت کا دل کرچی کرچی ہو جاتا ہے۔ وہ اندر سے ٹوٹ
پھوٹ جاتی ہے. اور پھر وہی عورت جس کی کردار کشی کی جاتی ہے اسے کوئی دوسرا مرد قبول
بھی نہیں کرتا.
شک ایک نفسیاتی بیماری ہے. یہ قابل علاج مرض ہے اس کا علاج با آسانی ماہر نفسیات
کر دیتے ہیں. میری صرف اتنی سی گزارش ہے کہ اگر کسی مرد کو یہ بیماری لاحق ہو تو خدارا
اپنا علاج کرائیں. فضول میں اپنا گھر برباد نا کریں. اپنے بچوں کے بارے میں سوچیں کیا وہ اپنی ماں کے بغیر رہ سکتے ہیں؟
یقیناً نہیں.... اپنی ایک بیماری کی وجہ سے اپنا اور اپنے
بچوں کا مستقبل برباد نہ کریں.
اگر ایک عورت سے آپ جان چھڑانا ہی چاہتے ہیں تو خدارا
اس کی کردار کشی مت کیجئے. اس کو ایسے طریقے سے چھوڑ دیں کہ آگے اسے کوئی دوسرا مرد
قبول کر سکے
12- آپس کی نااتفاقی
اکثر آپ نے
یہ کہتے سنا ہو گا کہ میرے شوہر مجھے سمجھتے نہیں ہیں یا شوہر کا یہ رونا ہوتا ہے کہ
ابھی تک میری بیوی کو میرا پتہ ہی نہیں چلا... تو دیکھیں اللہ تعالٰی نے صرف اس دنیا
میں اپنے پیارے نبی صل اللہ علیہ و سلم کو ہی پرفیکٹ بنایا ہے باقی اس دنیا میں کوئی
بھی کامل نہیں. ہر انسان میں کوئی نہ کوئی کمی لازمی ہوتی ہے. اگر کسی بات میں آپس
میں نہیں بنتی تو یہ سوچ کر اسے نظر انداز
کر دیں کہ میں بھی مکمل نہیں ہوں۔ مجھ میں
بھی بہت سی خامیاں ہیں. یہ چھوٹی چھوٹی خامیاں
آپس میں تُوں تکرار کا سبب بنتی ہیں۔ اور یہ تُوں تکرار ایک بڑی لڑائی کی صورت
میں سامنے آتی ہے۔ اور اس بڑی لڑائی کا فیصلہ ایک ہی لفظ پر ختم ہوتا ہے.
13- میاں بیوی کا ایک دوسرے کو ٹائم نہ دینا
آج کل کے معاشی حالات اور آسمان سے چھوتی مہنگائی نےہم سب
کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے. جیسے ایک بات مشہور تھی کہ پہلے دور میں ایک کماتا تھا اور
دس کھاتے تھے اور آج دس کماتے ہیں تو پھر بھی پورا نہیں ہوتا.
جب میاں اور بیوی کام میں لگ جائیں اور شام کو دونوں تھکے ہارے آئیں۔ اور آتے
ہی بیوی کام کاج میں لگ جائے۔ اور شوہر موبائل میں یا ٹی وی میں وقت گزارے تو دونوں
ایک دوسرے کو ٹائم کیسے دے پائیں گے اور جب ایک دوسرے کو ٹائم نہیں دے پاتے تو پھر
دوریاں بڑھتی رہتی ہیں.
اور پھر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض مرد تو اپنی بیوی کو باہر کہیں تفریح
کے لیے لے کر ہی نہیں جاتے ہیں یہاں تک کے شاپنگ کے لیے بھی نہیں. وہ بیوی کو ساتھ
لے کر جانا اپنی توہین سمجھتے ہیں. اور بیوی شاپنگ کے لیے بھی اپنی محترمہ ساس کے ساتھ
جاتی ہے. سوچو شادی آپ نے کی ہے یا ساس نے؟ ظاہر ہے شادی آپ نے ہی کی ہے تو بیوی کا
دل بھی کرتا ہے کی وہ بھی اپنے شوہر کے ساتھ باہر نکلے اور تفریح کرے.
اس کا حل یہ ہے کہ ہر چیز کا ٹائم ٹیبل بنایا جائے دونوں ایک دوسرے کو ٹائم
دیں. آپس میں بیٹھ کر اپنے فیوچر پلان اور اپنے گول (ٹارگٹ) ڈسکس کریں ایک دوسرے کو مشورہ دیں اور مشورہ لیں.
ایک دوسرے کو ہدیہ (گفٹ) دیں. کیونکہ کہ حدیث
مبارکہ ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ :
"آپس میں ایک دوسرے کو ہدیہ دو اس سے محبت
بڑھتی ہے“
(الحدیث)
یہ چند اہم وجوہات ہیں جن کا تدارک بہت ضروری ہے۔ تاکہ ہم
اپنی نسلوں کو برباد ہونے سے بچا سکیں۔ کیونکہ نقصان بچوں کا ہوتا ہے۔ اور وہ ذہنی
طور پر مفلوج ہو جاتے ہیں۔اس شرح کو کم کرنے کے لیے وکلاء کو کونسلنگ کرنی چاہیے۔ اور
میڈیا کو خاندانی نظام کی اہمیت سے روشناس کرانا چاہیے۔ والدین کو بچوں کی تربیت اس
انداز سے کرنی چاہیے کہ وہ اپنی ازدواجی زندگی احسن طریقے سے گزار سکیں۔ اور سب سے
اہم بات دین سے جڑیں۔ میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں۔ اور کوئی بھی فیصلہ
کرتے وقت بچوں کے مستقبل کو بھی مد نظر رکھیں۔ میری تو اتنی سی خواہش ہے کہ کسی کا گھر کسی
بھی وجہ سے نہ اجڑے. ہنستے کھیلتے زندگی گزاریں. اتنی چھوٹی سی زندگی میں اتنی ساری
ٹینشن پال لینا، ایک دوسرے سے اتنی نفرت کرنا، گھر خراب کر دینا، یہ اس چھوٹی سی زندگی
میں تو زیب نہیں دیتا.
آخر میں چھوٹی سی دعا کے ساتھ اختتام.... اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو اور
ہمیں اس زندگی کی بہاریں دیکھنا نصیب کرے. آمین.
0 comments:
Post a Comment